Writer Name : Hina Memon
Category : Romantic Novels
They write romantic novels, forced marriage, hero police officer based Urdu novel, suspense novels, best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels , romantic novels in Urdu pdf , full romantic Urdu novels , Urdu , romantic stories , Urdu novel online , best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels
romantic novels in Urdu pdf, Khoon bha based , revenge based , rude hero , kidnapping based , second marriage based, social romantic Urdu,
Qaid Novel Complete PDF Novel Complete by Hina Memon is available here to download in pdf form and online reading.
“میں نے کہا پانی پلاؤ” وہ دھاڑا ہیر کی سٹی گم ہوئی مگر
وہ پھر بھی ڈٹ کر بے نیازی سے کام کررہی تھی عرفان دھپ سے بیڈ سے اُٹھا تھا اور
جارحانہ انداز میں اُس کی جانب بڑھا تھا اور اُس کا بازو زور سے دبوچا تھا “تمہیں کب سے بکواس کر رہا ہوں پانی دو کھوپڑی میں بیٹھتی نہیں
کیا بات؟” وہ نہایت بدتمیزی سے غرایا ہیر کی نظریں اُس کے چہرے سے ہوتیں
اپنے سرخ بازو تک گئی تھیں “میرا بازو چھوڑو” وہ آنکھیں میچتی ضبط سے بولی “پہلے پانی!” وہ بھی ڈھٹائی سے بولا “وہ پڑا سامنے پانی خون تو پی رہے ہو پانی کی کیا ضرورت ہے؟” وہ بھی ناگواری سے دھاڑی اور اپنا بازو جھٹکے سے اُس کی گرفت
سے آزاد کیا تھا مگر اگلے ہی لمحہ اُس کی دنیا گھوم گئی تھی کیونکہ عرفان نے اپنی
پوری قوت سے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا تھا “بیوی ہو میری حکم کی غلام!! اگر دوبارہ اونچی آواز میں بات کی
تو ابھی صرف تھپڑ مارا ہے اگلی دفع زبان گُدی سے کھینچ لونگا آئی سمجھ؟” وہ
چیختا ہوا ٹیبل کی جانب بڑھا تھا اور گلاس اُٹھا کر غٹاغٹ پانی اپنے حلق میں اُتار
لیا تھا اور پانی کا گلاس دوبارہ بھر کے اُس کی جانب بڑھا ہیر کب سے پیاسی تھی
اُسے دکھ میں کچھ بھی نہیں سوجا تھا تمنا نے جو ایک گلاس پانی پلایا تھا اُس کے
بعد سے وہ پیاسی تھی ۔ پانی کو دیکھ کر اُس کے سوکھے لب اور بے چین ہوگئے تھے اُس
نے سوکھے لبوں پر زبان پھیر کر اُسے تر کیا عرفان نے اُس کی جانب پانی بڑھایا جسے
ہیر نے لینے چاہا مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پانی سفید ماربل کی زینت بن گیا وہ پھٹی
پھٹی نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگی “تم نے مجھے آج پانی سے انکار کیا ہے نہ! آج تمہیں پانی اور
کھانا دونوں نصیب نہیں ہوگا اور تم سارا کام خود کروگی نوکروں کو میں چھٹی دے چکا
ہوں” وہ سفاکی سے کہتا گلاس بھی اُسی زمین کی زینت بن گیا “اب جاؤ اسے بھی صاف کرو” وہ اُسے اشارہ کرتا خود فریش
ہونے چلا گیا