Novel : Yeh Qasoor Mera Hai Novel Complete PDF
Writer Name : Jiya Abbasi
They write romantic novels, forced marriage, hero police officer based Urdu novel, suspense novels, best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels , romantic novels in Urdu pdf , full romantic Urdu novels , Urdu , romantic stories , Urdu novel online , best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels
romantic novels in Urdu pdf, Khoon bha based , revenge based , rude hero , kidnapping based , second marriage based, social romantic urdu,
Yeh Qasoor Mera Hai Novel Complete PDF Novel Complete by Jiya Abbasi is available here to download in pdf form and online reading.
اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی پر سر میں اُٹھتی ٹیس کی وجہ
سے دوبارہ بند کرلیں۔ اسے اپنا وجود کسی نرم و ملائم بستر پر پڑا محسوس ہو رہا
تھا۔ اس کے کانوں میں آوازیں آرہی تھیں گویہ یوں کہ کوئی اسے پکار رہا ہے۔ ایک درد
بھری، ایک دُکھ بھری، ایک پیار بھری آواز میں کوئی اس پر جھکا اسے اُٹھا رہا ہے۔ آمنہ
نے ہلکے سے اپنے ہونٹوں کو جنبش دے کر پکارا۔ ”احمد“ ” یس مائے لیڈی۔” احمد کی مسکراتی آواز اس کے کانوں سے
ٹکرائی۔ آمنہ نے ایک جھٹکے سے اپنی آنکهيں کھولیں۔ احمد کو اپنی نظروں کے سامنے
پایا وہ یکدم اُٹھ بیٹھی۔ ” آرام سے۔۔۔ آرام سے لڑکی کس بات کی جلدی رہتی ہے۔” وہ
مسکرا کے بولا۔ ” دیکھو آج کا دن کتنا اچھا ہے۔ تمہیں پتہ ہے میں روز آفس کے
لیے لیٹ ہو جاتا تھا۔ آج جلدی اُٹھ کر آفس جانے کے لیے گھر سے نکلا اور تم مل
گئیں۔ صحيح کہتے ہیں انسان کو صبح جلدی اُٹھنا چاہیئے اس میں ہی اللّٰہ کی رحمت
ہے۔” وہ مسکرا کر اُسے بتا رہا تھا۔ آمنہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ ایسے ریکٹ کیوں کر رہا ہے۔ کیا وہ اس کے بارے میں نہیں
جانتا جب پوری دنیا کو پتہ ہے تو پھر وہ کیوں ایسے ریکٹ کر رہا ہے؟ وہ صرف سوچ کے
رہ گئی بولی کچھ نہیں۔ ” کیا ہوا ؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہو کچھ بولو گی بھی؟ ” آمنہ
کو خاموش دیکھ کر احمد پھر گویا ہوا۔ آمنہ خاموشی سے بیڈ پر سے اُتری اور صوفے کی
طرف گئ جہاں اس کی چادر پڑی تھی۔ احمد جو خاموشی سے بیٹھا اس کی ساری کاروائی دیکھ
رہا تھا اس کو چادر اُٹھاتا دیکھ فوراً اُٹھ کر اس کے پاس آیا۔ ” کیا ہوا؟ کہاں جا رہی ہو؟ ” آمنہ نے کوئی جواب نہ دیا بس
خاموشی سے چادر خود پر لینے لگی۔ تبھی احمد نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتهوں سے چادر
چھینی۔ ” کیا کر رہی ہو ہاں؟ اب کہاں جا رہی ہو؟ پاگل دکھتا ہوں تمہیں
جب دل کرے گا آجاؤ گی جب دل کرے گا چھوڑ کے چلی جاؤ گی ہاں بولو؟ ” احمد غصّے
سے چلایا۔ آمنہ اس کے چلانے سے سہم گئی پہلی بار اس کا غصّہ دیکھا تھا۔ وہ ڈر کے
پیچھے ہٹی۔ ” سب مجھے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ بہن، ماں باپ، چچا چچی اور تم
بھی۔۔ پتہ ہے کہاں کہاں نہیں تلاش کیا تمہیں میں نے ہر جگہ ڈھونڈا پر تم نہیں
مليں۔ تمہارے غم میں چچی بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئیں میں اکیلا رہ گیا اور اب جب تم
ملی ہو تو تم پھر چلی جاؤ۔ سب مجھے چھوڑ جاؤ۔” یہ کہتے ہوئے احمد رونے لگا
تھا۔ آمنہ کا دل دُکھا وہ جانتی تھی احمد ہمیشہ سے ہی رشتوں کے معاملے میں کتنا
حساس تھا۔ اس کا دل کرا بول دے کہ وہ کہیں نہیں جا رہی اُس کے پاس ہی ہے پر تبھی
اس کو اپنے کانوں میں زینب کی آواز سنائی دی۔ جو بول رہی تھی۔ ”مرد
میں اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ ایک زانیہ عورت کو اپنا نام دے سکے۔ ہاں لیکن اگر ترس
کھا کر تمہیں رکھ بھی لیا اپنے ساتھ تو ساری زندگی تم پر طنز کے تیر چلاتا رہے گا
آمنہ اور تم برداشت نہیں کر پاؤ گی“ ” نہیں۔۔ میں نہیں کر سکتی۔” آمنہ کے دل نے کہا تھا۔ جس
زبان سے اپنے لیے پیار بھرے لفظوں کے سوا کچھ نہ سُنا تو کیسے اُس کے منہ سے اپنے
لیے زانیہ کا لفظ سنتی۔ آمنہ نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا جو احمد کی مضبوط گرفت
میں تھے۔ وہ فوراً ہاتھ چھڑاتی تیزی سے کمرے سے باہر بھاگی۔ ”
سنو !! آمنہ رک جاؤ یار۔۔ پلیز رک جاؤ۔ مت جاؤ
میں کیسے رہوں گا اکیلے آمنہ۔” وہ چلاتے ہوئے اُس کے پیچھے بھاگا اور اُس کا
بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ ” تمہیں کیوں مجھ پر ترس نہیں آتا ہمیشہ اپنے بارے میں کیوں
سوچتی ہو تم؟ کتنی دعائیں مانگی ہیں میں نے اللّٰہ سے کہ تم لوٹ آؤ پر تم واپس
جانے کے در پر ہو کیوں؟ جواب دو۔” ” کیا تم نہیں جانتے؟ ” آمنہ نے پلٹ کر سوال کیا۔ “سب جانتے ہیں پوری دنیا کو پتہ ہے میں ایک زانیہ عورت ایک طوائف۔۔۔” آمنہ بول ہی رہی تھی کہ اس کی بات ادھوری رہ گئ۔ احمد کا ہاتھ
اُٹھا اور آمنہ کے منہ پر نشان چھوڑ گیا۔ وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے آنسو بہاتی
احمد کو دیکھ رہی تھی جو اپنے غصّے کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ” آئندہ میں تمہارے منہ سے یہ بکواس نہ سنوں۔ مجھے فرق نہیں
پڑتا دنیا کیا کہتی ہے کیا جانتی ہے۔ بس میں یہ جانتا ہوں کے مجھے تمہاری ضرورت ہے
اب تمہیں نہیں کھو سکتا۔ پلیز آمنہ مت جاؤ میں اکیلا ہوگیا ہوں تم تو مت جاؤ۔ میں
قسم کھاتا ہوں کبھی تمہیں کوئی دُکھ تکلیف میری طرف سے نہیں پہنچے گی۔ کبھی تمہیں
طعنہ نہیں دونگا۔ میں پوری کوشش کروں گا تمہیں خوش رکھنے کی آمنہ پلیز مت جاؤ
پلیز۔”وہ کہتا ہوا گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ اُس کو یوں روتا دیکھ آمنہ
کے دل میں تکلیف ہوئی۔ اس کی آنکھوں سے بھی آنسو نکلنے لگے وہ بھی اُس کے ساتھ
زمین پر بیٹھ گئ۔ ” احمد ماما۔۔۔” آمنہ نے روتے ہوئے کہا۔ احمد نے چہرہ
اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا جو اب اپنی ماں کے غم میں آنسو بہا رہی تھی۔ احمد نے
فوراً اُسے اپنے سینے سے لگا لیا اور دونوں ایک دوسرے کے گلے سے لگے آنسو بہاتے
رہے اپنے دُکھ درد بانٹتے رہے۔
It’s Free Download Link