Writer Name : Abida Zahid Karim
Category : Love Story Based Novel
They write romantic novels, forced marriage, hero police officer based Urdu novel, suspense novels, best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels , romantic novels in Urdu pdf , Bold romantic Urdu novels , Urdu , romantic stories , Urdu novel online , best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels
romantic novels in Urdu pdf, Khoon bha based , revenge based , rude hero , kidnapping based , second marriage based, social romantic Urdu,
Aik Raat Ki Dulhan Meri Novel Complete by Abida Zahid Karim is available here to
خوشی نے جواب دیا، نہیں ابا جان میں اب ان کی
شادی شدہ زندگی کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی. ورنہ ہم تینوں کی زندگی بےسکون ہو جاے گی. ماں بیٹی اور
نواسی نواسے کو یاد کر کے روتی. آخر خوشی نے باپ کو ان سے راضی ہونے پر منا لیا. بہنوئی جو
اپنی عادتوں کی وجہ سے خاندان بھر سے دور ہو چکا تھا. اندر سے شکر کیا اور بیوی کو
چھوڑ کر تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیا. اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی ماں کی طبیعت
سخت خراب ہو گئی. اسے پڑوسیوں کی مدد سے ہاسپٹل پہنچایا گیا مگر
وہ راستے ہی میں دم توڑ گئ. خوشی اور اس کے گھر والوں پر قیامت گزر گئ. پڑوسیوں نے
بہت ساتھ دیا. بہن کا شوہر گھر سے باہر تھا کہ اسے بیوی کا
فون آیا کہ امی جان فوت ہو گئ ہیں. شوہر نے چالاکی سے بہت افسوس کرتے ہوئے کہا کہ
اسے بہت ضروری کام سے کراچی جانا پڑ گیا ہے وہ جلد از جلد آنے کی کوشش کرے گا. محلے والوں نے
بہت ساتھ دیا. خوشی کے بہنوئی کو جب اطمینان ہو گیا کہ اب
تیسرے دن ہی قل کے ساتھ چالیسواں بھی ہو گیا ہے تو وہ چوتھے دن واپس آیا. بیوی رو رو کر
نڈھال ہو رہی تھی. وہ بیوی کو بہت پیار سے تسلیاں دیتا رہا. ساس
کی قبر پر بھی گیا. وہ کافی عرصے سے باہر ملک جانے کی کوشش میں لگا
ہوا تھا اور اب اسے اتفاق سے اچھی جاب بمعہ فیملی ویزے کے مل چکی تھی. ایک پرانا
دوست اسکا ساتھ دے رہا تھا. وہ باہر چلا گیا. خوشی کی پرنسپل اسکی شادی اپنے بھائی سے کرنا
چاہتی تھی. وہ اس کے سب حالات جانتی تھی. اسے اس کے ساتھ بہت لگاو ہو گیا تھا. اس نے اسے
مشورہ دیا کہ اتنی پہاڑ جیسی زندگی کیسے اکیلے کاٹو گی. ماں کے بعد باپ کو کچھ ہو گیا تو کیا کرو گی.
ایسا کرو. شوہر سے طلاق لے کر میرے بھائی کے ساتھ شادی کر لو. خوشی نے کہا، میں امید سے ہوں اور اپنے بچے کے
سہارے زندگی بسر کر لوں گی. میرا باپ بیمار ہے. میں اسکا سہارا بنوں گی. وہ دعائیں
دینے لگی. خوشی اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ اسکول جاتی اور
بچے کو بھی ساتھ رکھتی. اسکول کے ڈے کیر میں فارغ وقت میں چکر لگا آتی. بیٹا اب سال
سے اوپر کا ہو گیا تھا. وہ اگر پرنسپل کو کوئی کام ہوتا یا وہ چھٹی پر
جاتی تو وہ خوشی کے سپرد اپنا کام کر جاتی. خوشی پرنسپل کی سیٹ پر اپنا کام خوش اسلوبی سے
سر انجام دیتی. کچھ کولیگ اس سے جیلس ہوتیں اور کچھ کو اس سے
ہمدردی تھی. کہ اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی. ایک دن خوشی آفس میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کے
سسر اور ان کا ہی ایج کا کوئی شخص ان کے ساتھ آیا. خوشی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے سسر کو سامنے دیکھ
کر. مگر وہ دونوں کو سلام کر کے انجان سی بن گئی. وہ آدمی بولا،
میں اپنے پوتے کا ادھر ایڈمشن کرانا چاہتا ہوں. میں اپنی فیملی کے ساتھ ملک سے باہر ہوتا تھا
اب پاکستان سیٹل ہوا ہوں. یہ میرے فرسٹ کزن ہیں. انہوں نے اس شہر کے چند اچھے
اسکولوں کا وزٹ کروایا. مگر سب سے زیادہ میں آپ کے اخلاق سے متاثر ہوا ہوں. میری بیوی
بیمار سی رہتی ہے. اسے کسی بااخلاق لیڈی کی ضرورت ہے. اتنے میں پرنسپل آ گئ اور خوشی اٹھتے ہوئے
بولی، سر یہ پرنسپل صاحبہ ہیں. وہ جانے لگی تو وہ آدمی بولا، پلیز بیٹا آپ
بیٹھیں اور میری آفر پر غور کریں. اس اسکول میں آپ جتنا وقت دیتی ہیں. اتنا اگر
آپ میرے گھر میں میری بیوی کو دیں تو میں آپ کا احسان نہیں بھولوں گا. آپ کو اس سے
بہت زیادہ تنخواہ بھی دوں گا اور ایڈوانس بھی تین ماہ کی سیلری دوں گا. اس کے سسر نے
پہلو بدلا. خوشی نے سسر کی طرف ہلکہ سا دیکھا اور معزرت کے
ساتھ انکار کر دیا. پرنسپل جو اس کی بہت ہمدرد تھی. جھٹ سے بولی،
کیوں نہیں مگر اس کے ساتھ اس کا بوڑھا باپ اور ایک ڈیڑھ سال کا معصوم سا بچہ بھی
ہے. اور شوہر. پرنسپل نے کہا، اس نے دوسری شادی کر لی. کیا طلاق؟ نہیں
نہیں اس نے طلاق نہیں لی. وہ افسوس کرتے ہوئے بولا، کیسے ہیرے دنیا میں
رل رہے ہیں اور دنیا کو ان کی قدر نہیں. پھر وہ بولا، میں ان کو اپنے گھر عزت سے ایک
فیملی ممبر کی طرح رکھوں گا. ان کے والد محترم کو عزت و احترام سے رکھوں گا. بچے کی ساری
دیکھ بھال کی زمہ داری میری. خوشی نے احتجاجی طور پر انکار کیا تو پرنسپل
اسے پیار سے ڈانٹتے ہوئے بولی،سر یہ بہت خوددار لڑکی ہے. ایسے ہی اس کے والد محترم
ہیں. وہ بولا ،ظاہر ہے انہیں کی تربیت ہے. خوشی نے پھر عزر پیش کیا کہ ان کا چھوٹا سا
اپنا گھر موجود ہے. میں اتنی ہی ڈیوٹی دے کر واپس گھر آ جایا کروں
گی جتنی اسکول میں دیتی ہوں تب تو ٹھیک ہے مگر اتنی ہی تنخواہ لوں گی جو یہاں لیتی
ہوں. ہو سکتا ہے آپ کی واہف کے معیار پر پوری نہ اتروں. وہ بولا چلو
بیٹا آپ آو تو سہی. پھر دیکھتے ہیں. اگر میری واہف آپ سے خوش نہ بھی ہوئی تو میں آپ
کو اپنی بیٹی کی طرح رکھوں گا. میری کوئی بیٹی نہیں ہے. دو بیٹے ہیں ان کو بہن مل
جائے گی. ایک شادی شدہ ہے اور ایک بیٹی اور ایک بیٹے کا باپ ہے. آپ ان
بچوں کو پڑھانے کا کام کر لینا. خوشی پھر بولی، سر میں اپنے والد صاحب سے پہلے
پوچھ لوں اگر انہوں نے اجازت دی تو. پرنسپل بولی، اتنی اچھی آفر ہے. میں اس کے والد
محترم سے اجازت دلوا دوں گی. کچھ عرصہ آپ اس کا ورک دیکھیں پھر اس کے والد صاحب کی
آفر دیکھ لیں گے کہ کیا حالات ہوتے ہیں. آپ کے گھر والوں کا رسپانس کیا ہے. وہ بولا، ٹھیک
ہے میں کل دوبارہ آوں گا اور ان کے والد صاحب سے بھی ملاقات کروں گا انشاءاللہ.
Download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download 115 Pages Pdf
It’s Free Download Link