Novel : Ishq e Shumail Season 1 Complete Novel
Writer Name : Soni Mirza
Category : Jinzaad & Insan Love story
Soni Mirza is the author of the book Ishq e Shumail Season 1 Pdf. It is an excellent Jinzaad & Insan Love story Romanve Based,
“ہاۓ“! وہ بیڈ کی ٹوہ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی موبائل میں مگن تھی
جب اسکی کھڑکی سے ایک آواز ابھری۔ اس نے فوراً گردن گھما کر بائیں جانب دیکھا تو شُمائل
کھڑکی میں بیٹھا تھا۔ وہ چونک کر تاڑتی ہوئی جھٹ سے اٹھ کر اسکے روبرو ہوئی۔ “آپ؟۔۔۔۔آپ یہاں میری کھڑکی میں
کیسے آئے”؟ “مجھے پتہ ہے
کہ ایسے ہی کسی کے کمرے میں بنا اجازت کے آنا جانا غلط ہے۔۔۔۔لیکن دیکھو میں کمرے
کے اندر نہیں آیا صرف کھڑکی میں بیٹھا ہوں”۔ “میرا سوال ابھی وہیں کا وہیں ہے کہ آپ یہاں کھڑکی میں کیسے
آئے”؟ اپنی دونوں پسلیوں پر بازو ٹکائے وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی اور
مقابل شخص اسکا چہرہ حسرت سے تکتا رہا۔ “نیچے سے”۔ “لیکن نیچے سے اتنا اوپر آپ چڑھے کیسے”؟ “پائپ سے”۔ “لیکن پائپ سے کوئی کیسے چڑھ
سکتا ہے؟ پاؤں سلیپ ہو جائے گا”۔ “لگتا ہے تمہیں میرا آنا اچھا نہیں لگا۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے میں چلتا
ہوں”۔ “ارے نہیں!
آپ میری بات کا غلط مطلب لے رہے ہیں”۔ اسکے واپس رخ موڑنے پر ہی وہ جھٹ سے
بولی تو شمائل مسکرایا۔ “تو اس کا مطلب ہے کہ میں یہیں بیٹھا رہوں”؟ آنکھوں میں
شرارت تھی۔ “میرا یہ
مطلب بھی نہیں تھا”۔ وہ معصومیت سے گویا ہوئی۔ “تو پھر تم اتنے سوالات کیوں کر رہی ہو”؟ “اوکے فائن اس بات کو چھوڑو
لیکن مجھے یہ جاننا ہے کہ آپ اس دن اچانک کہیں غائب کیسے ہو گئے تھے”؟ “میری سپیڈ ہی اتنی ہے”۔ “وٹ ڈو یو مین”؟ ماتھے پر
چند شکنیں آئیں۔ “یعنی میں
غائب نہیں ہوا تھا اور اچانک اتنی سپیڈ سے چل کر گیا کہ تمہیں لگا ہوگا کہ غائب
ہوگیا”۔ “شاید۔۔۔۔لیکن
میں سچ میں اس دن بہت حیران ہوئی تھی”۔ اس نے سر کھجایا۔ “کوئی اور سوال”؟ “ہاں مجھے جاننا تھا کہ آپ کل
کیوں نہیں آئے؟۔۔۔۔میں اتنا انتظار کرتی رہی”۔ “میرا انتظار کیوں”؟ وہ ہنسا۔ “پچھلے دو تین دنوں سے آپکو دیکھ رہی تھی اور اچانک اگلے دن نہیں
آؤ گے تو بے چینی تو ہوگی نہ”۔ “ویسے تم مجھے آپ کی بجائے تم کہو گی تو زیادہ اچھا لگے گا”۔
“ٹھیک ہے تو
میں آج سے تمہیں تم ہی کہوں گی”۔ “اچھا رہے گا”۔ وہ بولا تو کئی لمحوں تک دونوں خاموشی سے ایک
دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے رہے۔ “کیا ہم اچھے دوست بن سکتے ہیں پریشے”؟ اس نے یکایک کہا تو
وہ اس کی آنکھوں کے سحر سے باہر آئی۔ “جیسا دوست میں چاہتی ہوں ویسا مجھے کبھی نہیں ملا”۔ اسکے
چہرے پر افسردگی چھا گئی۔ “اور وہ کس قسم کا ہے”؟ “ایک ایسا دوست جو ہمیشہ میرے ساتھ ہو۔۔۔چاہے میری اس سے مہینوں
بات نہ ہو۔۔۔۔پر میرے ایک بار پکارنے پر وہ بالکل میرے سامنے ہو۔۔۔۔کوئی ایسا جس
پر میں اتنا یقین کر سکوں جتنا میں خود پر کرتی ہوں۔۔۔۔کوئی ایسا جس سے میں اپنے
دل کی ساری باتیں شیئر کر سکوں اور پھر بھی۔۔۔۔پھر بھی وہ۔۔۔۔۔”۔ “پھر بھی وہ کبھی تمہیں جج نہ
کرے۔۔۔۔بلکہ تمہیں سمجھے”۔ اس نے بات کاٹی اور فقرہ مکمل کیا تو وہ ہنسی۔ “ہاں”۔ “تو سمجھو کہ تمہیں مل
گیا”۔ “مطلب”؟
وہ سمجھ تو گئی تھی لیکن پھر بھی تصدیق چاہتی تھی۔ “شمائل وہ ہے جو کبھی جلدی کسی سے رشتہ نہیں بناتا۔۔۔۔۔لیکن اگر
ایک بار بنا لے تو اپنی جان کی بازی بھی لگا دیتا ہے”۔ “پر میں تم پر یقین کیسے کر سکتی ہوں”؟ “میں کہہ بھی نہیں رہا کہ مجھ
پر یقین کرو۔۔۔۔بس آزما کر دیکھ لینا۔۔۔۔اگر واقعی میں تمہاری دوستی کے قابل ہوا
تو ہم دوست۔۔۔۔ورنہ اجنبی ہی اچھے”۔ “اور تم بھی یاد رکھنا۔۔۔۔پریشے کی صرف ایک دوست تھی۔۔۔۔ایلسا نام
کی۔۔۔۔۔جس سے میری آج بھی کبھی کبھی بات تو ہو جاتی ہے پر۔۔۔۔۔پر شاید میں اس سے
اب دوبارہ کبھی مل نہ پاؤں۔۔۔۔میں اپنے کبھی بھی کسی دوست کو ہمیشہ کے لیے نہیں
کھونا چاہتی شمائل”۔ “ایک بار میرا نام پکار کر تو دیکھنا۔۔۔۔اگر اگلے ہی لمحے میں میں
تمہارے سامنے نہ ہوا۔۔۔۔۔تو بے شک جان لے لینا”۔ اسکے پرمحبت جواب پر وہ دل
سے مسکرائی تھی۔ پریشے کے دل میں تو کہیں ہلچل ہوئی ہی تھی لیکن شمائل کے دل میں
بھی آج پہلی بار کوئی طوفان جگ اٹھا تھا۔ وہ جس نے کبھی بھی کسی سے محبت نہیں کی
تھی اب اپنا دل ایک انسانی لڑکی کے لئے ہار چکا تھا۔ دوسری جانب پریشے کا دل سے
مسکرانا اس بات کا صاف الارم دے رہا تھا کہ وہ بھی اسکی چاہت کے سحر میں بہت جلد
گرفتار ہونے والی ہے۔ لیکن دونوں ہی ایک دوسرے کے حالِ دل سے پوری طرح باخبر
آنکھیں ملا کر مسکرا رہے تھے۔ “پری بیٹے”! مسٹر طاہر کے اچانک دستک دینے پر وہ دونوں چونک
گئے۔ “اب تم جاؤ
شمائل۔۔۔۔۔بہت جلد تمہیں ڈیڈ سے بھی ملواؤں گی”۔ اس نے دھیرے سے سرگوشی کی۔ “ٹھیک ہے”۔ “سنو”! اس کے نیچے مڑنے پر
پریشے نے آواز دی تو وہ واپس گھوما۔ “سنائیے”! آرام سے اپنی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر وہ اتنے
پیار سے بولا کہ وہ پھر سے خاموش رہ کر تکنے لگی۔ “جلدی بولو ورنہ تمہارے ڈیڈ آجائیں گے”۔ “کل آؤ گے”؟ “جب جب پکارو گی۔۔۔۔۔۔شمائل
حاظر ہوگا”۔ اسکے جواب پر وہ سر جھکا کر تبسم سجانے لگی اور اگلے ہی لمحے وہ
کھڑکی سے نیچے اترنے لگا۔ پریشے نے بھاگ کر دروازہ کھولا۔ “بیٹے کس سے باتیں کر رہی تھی”؟ طاہر نے آتے ہی سوال داغا تو
وہ کشمکش میں کھڑکی کی طرف دیکھنے لگی۔ “آ۔۔۔وہ۔۔۔ڈیڈ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔اپنی دوست ایلسا سے باتیں کر رہی تھی
میں”۔ “اچھا۔۔۔۔بیٹے
میں نے سنا ہے کہ آپ نے آج عماد کی انسلٹ کی ہے”۔ “نہیں”۔ وہ دوٹوک بولی۔ “تو کیا وہ آج آپ کو مووی کے لیے بلانے نہیں آیا تھا”؟ “آیا تھا”۔ “تو پھر آپ نے اسے کمرے سے کیوں
نکالا”؟ “میں نے اس
کا ہاتھ پکڑ کر تو اسے کمرے سے نکالا نہیں ہے ڈیڈ۔۔۔۔بس گڈ بائے بولا تھا اور وہ
چلا گیا”۔ “پر بیٹے
ایسے کسی کو نہیں کہتے”۔ “ڈیڈ میں نے اس کی کوئی انسلٹ نہیں کی۔۔۔۔نہ میں نے اسے یہ کہا کہ
میرے کمرے سے باہر نکل جائے”۔ “بیٹے میں نے آپ کی یہ تربیت تو نہیں کی۔۔۔کوئی اگر آپ کو کسی چیز
کے لیے انوائٹ کرنے آیا ہے تو اس کے ساتھ جانا چاہیے”۔ “حامی آپ لوگوں نے بھری تھی میں نے نہیں”۔ “لیکن اب وہ آپ سے ناراض ہو کر
گیا ہے”۔ “تو ہو جائے
ناراض۔۔۔۔ ہُو کیئرز”؟ شانِ بے نیازی سے کندھے اچکاۓ۔ “پری بیٹے”! مسڑ طاہر نے غصے سے دیکھا۔ “ڈیڈ پلیززز۔
- Download in pdf form and online reading.
- Click on the link given below to Free download 277 Pages Pdf
- It’s Free Download Link