Writer Name : Maha Gull Rana
Category : Social Romantic Novels
They write romantic novels, forced marriage, hero police officer based Urdu novel, suspense novels, best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels , romantic novels in Urdu pdf , full romantic Urdu novels , Urdu , romantic stories , Urdu novel online , best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels
romantic novels in Urdu pdf, Khoon bha based , revenge based , rude hero , kidnapping based , second marriage based, social romantic Urdu,
Between Love And War Novel Complete PDF Novel Complete by Maha Gull Rana is available here to download in pdf form and online reading.
حیام کبھی اپنے ہاتھ کو دیکھتی جو حسام نے تھاما ہوا تھا اور کبھی
سامنے سنسان سڑک کو پتہ نہیں وہ اسے کہا لے جا رہا تھا لیکن حیام میں پوچھنے کی
ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی “عجیب سا احساس تھا آج
تک وہ اپنی بہنوں کی محافظ بنتی آئی ان کے لیے لڑتی رہی لیکن آج حسام کو اپنا
محافظ بنا دیکھ، اپنے لیے لڑتے دیکھا حیام کوخوشی کے ساتھ عجیب سا احساس رگ و پے
میں سرایت کرتا محسوس ہوا — اس احساس کو وہ کوئی نام نہیں دے پارہی تھی” اچانک گاڑی رکنے پر حیام ہوش میں آئی اور حسام
کی جانب دیکھا جو کار سے باہر نکل کر حیام کی جانب آرہا تھا دروازا کھول کر حیام
کو باہر نکال کر دروازے سے اس کی پشت ٹکا کر دائیں اور بائیں جانب اپنے ہاتھ ٹکا
دیے جبکہ حیام ٹرانس سی کیفیت میں سب دیکھ رہی تھی اپنے چہرے پر پڑتی حسام کی نرم
گرم سانسیں اس ٹھنڈ میں بہت بھلی لگ رہی تھی لیکن وہ نظریں حسام کے جوتوں پر ٹکائے
خاموش کھڑی تھی جبکہ حسام آنکھوں میں جزبوں کی آنچ لیے بغور حیام کو دیکھ رہا تھا ہاتھ
بڑھا کر چہرے پر آئی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسا تو حیام نے آنکھیں بند کر کہ حسام کے
لمس کو محسوس کیا مگر نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھی میرے پاس—ابھی حسام جملہ پورا کرتا کہ حیام نے اس کی بات کاٹ
دی “الفاظ کبھی بھی روح پر
لگے گھاؤ کا مداوا نہیں کر سکتے” ہنوز نظریں جھکائے کہا تو حسام نے بے بسی سے
اپنے جبڑے بھنچے “ایک محبت کرنے والے شخص
کے الفاظ میں اتنی تاثیر تو ہوتی ہے کہ ان گھاؤ پر اپنے الفاظ سے مرہم رکھ سکے ،
ان کی تکلیف کو کم کر سکے”
“اگر پھر بھی میں ناکام
ٹھہرا تو اپنے محبت بھرے لمس سے ان گھاؤ کو بھر دوں گا مجھے ایک موقع تو دو
زندگی— بوجھل لہجے میں سرگوشی کرتے اپنا سر حیام کے سر سے ٹکا دیا حیام کی
آنکھیں پل میں نم ہوئی نظریں اٹھا کر حسام کو دیکھا تو حسام کو اپنا دل ان نم نین
کٹوروں میں ڈوبتا محسوس ہوا ہاتھ بڑھا کر حیام کی آنکھ کے کونے سے آنسوں صاف کیا
اور اپنا ہاتھ حیام کے گال پر ٹکا دیا “خدا گواہ ہے کہ حسام
راجپوت نے کتنی شدت سے تمہیں چاہا ہے، تم سے دوری حسام راجپوت کے لیے بہت جان لیوا
ثابت ہوئی ہے یہ مت سمجھنا کہ تم بن مرا نہیں تو مر نہیں سکتا— تم تک واپس لوٹنے کے لیے
جسے جی لیا وہ زندگی تو نہیں تھی–اب دور جاؤ گی تو خدا کی قسم حسام راجپوت مر جائیں
گا” بوجھل نم لہجے میں کہتا
وہ حیام کو ساکت کر گیا آخری بات پر حیام نے تڑپ کر اپنا ہاتھ حسام کے ہونٹوں پر
رکھا جس پر شدت سے حسام نے اپنے لب رکھے اور ہاتھ ہونٹوں سے ہٹا کر اپنے دل کے
مقام پر رکھ لیا “مجھ پر رحم کرو حیام— یہ ہجر بہت جان لیوا ہے
اپنا سر حیام کے سر سے ٹکاتے کہا تو حیام نے اپنی آنکھیں موند لیں حسام کی نظروں
کی تپش پر حیام نے آنکھیں کھولی اور اس کی نظر اپنے ہونٹوں پر دیکھ کر پیچھے
کھسکنا چاہا جب حسام نے جھک کر اپنے لب حیام کے لبوں پر رکھنے چاہے تو حیام نے
چہرہ پھیر لیا حسام نے بے بسی سے اس کے کپکپاتے وجود کی طرف دیکھا پھر دونوں کے
درمیان تھوڑے سے فاصلے کو سمیٹ کر آگے بڑھا اور اپنی شال میں حیام کو لے کر اس کے
گرد حصار باندھ دیا بدل گئے میرے موسم تو یار اب آئے غموں نے چاٹ لیا غمگسار اب
آئے یہ وقت اس طرح رونے کا تو نہیں— لیکن میں کیا کروں کہ میرے سوگوار اب آئے تلخ
لہجے میں شعر پڑھ کر حسام کی آنکھوں میں دیکھا “تم لوگوں کے لیے یہ ہجر صرف جان لیوا تھا، لیکن میرے لیے یہ ایک
ایسا زہر ثابت ہوا جو میری رگوں میں مکمل طور پر رچ گیا اور اب ہر گزرتے دن کے
ساتھ یہ مجھے تل تل مار رہا ہے – اپنا سر حسام کے سینے سے ٹکاتے روتے ہوئے کہا تو حسام نے اپنی گرفت
حیام کے گرد سخت کر دی “اس سفر پر صرف تم لوگ
ایک دوسرے سے دور ہوئے لیکن میں نے اپنا سب کچھ کھو دیا حسام—اپنا بچپن—اپنے خواب—اپنی خوشیاں—اپنا آپ—اپنی محبت—اپنے جزبات–میرا وجود نامکمل
ہو گیا تھا حسام بتاؤ کیا کروں میں— حسام کی شرٹ مٹھیوں میں دبوچے تڑپ تڑپ کر
روتے ہوئے کہا تو حسام کو اپنا دل پھٹتا محسوس ہوا “میرا وجود کرچی کرچی ہوگیا ہے –بہت کوشش کرتی ہو سمیٹنے کی پر ہر بار خود کو زخمی
کر بیٹھتی ہوں”
ہششش—تم۔نا مکمل نہیں ہو ادھورا
تو میں تھا —اور ہوں بھی مہارے بن—میرے وجود کا حصہ ہو تم حیام— مجھے صرف تمہاری
چاہ ہے میری بن کہ میرا یہ ادھورا پن ختم کر دو مجھے تمہارے سوا کچھ بھی نہیں
چاہئیے—مججے تم سے صرف تمہاری طلب
ہے –حیام کا چہرہ ہاتھوں میں
بھر کر شدت سے کہا تو حیام نے نم پلکیں اٹھا کر حسام کی جانب دیکھا جو اپنی روشن
آنکھوں سے حیام کو ہی دیکھ رہا تھا جھک کر نرمی سے حیام کے ہونٹوں کو چھوا اور شدت
سے اسے خود میں بھینچ لیا
Online Reading
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹس باکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول کیسا لگا ۔ شکریہ