Novel : Main Hari Complete Novel Pdf
Writer Name : Saima Bukhtiyar
They write romantic novels, forced marriage, hero police officer based Urdu novel, suspense novels, best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels , romantic novels in Urdu pdf , full romantic Urdu novels , Urdu , romantic stories , Urdu novel online , best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels
romantic novels in Urdu pdf, Khoon bha based , revenge based , rude hero , kidnapping based , second marriage based,
Main Hari Complete Novel Pdf Novel Complete by Saima Bukhtiyar is available here to download in pdf form and online reading.
شہلا آنسو پیتی دونوں بیٹیوں کو آغوش میں بھر
کر سٹور روم میں چلی گئی۔۔۔ یہ اس گھر کی واحد پناہ گاہ تھی جہاں وہ اور اس کی
بیٹیاں کچھ پل سکون کے گزارتے۔۔۔۔ وقت پورا ہوا تو اللہ نے پھر اپنی رحمت سے نوازا
۔۔مرحا اور روحا بہن کے آنے کا سن کر خوشی سے پاگل تھیں وہیں شہلا کا رو رو کر برا
حال تھا ۔۔۔۔ اعجاز صاحب نے ہاسپٹل آنے کی بھی زحمت نہ کی تھی تینوں بچیوں کے ساتھ
وہ ہاسپیٹل میں اکیلی پڑی تھیں کچھ دیر کے لیے شہلا کے بھائ بھابی آۓ تھے بس۔۔۔ دیکھو
باجی اگر تم کو میں ساتھ لیے گیا تو وہ خبیث اعجاز فوراً طلاق دے دے گا۔ تم ہمت
کرو واپس گھر جاؤ اُس کے قدموں میں بیٹھ جاؤ لیکن اپنا گھر بچاؤ۔۔۔ ان تین تین
بچیوں کے لئے باپ کا ساتھ ضروری ہے ۔۔۔ان کے ساتھ تمہاری دوسری شادی ممکن نہیں اور
میں ساری زندگی کا ٹھیکہ نہیں اٹھا سکتا۔۔۔صاف لفظوں میں بھائی نے اُس کو واپس
جانے کا کہا ۔۔۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ واپس گھر پہنچی تھی جہاں کوئی اُس
کا منتظر نہیں تھا۔۔۔ تو کیوں آئیں واپس۔۔۔۔ان نحوست کی پوٹلیوں کے ڈھیر لیے۔۔۔۔ ایک
پوتا نہیں دے سکی ہمیں کمبخت۔۔۔امّاں نے اُسے دیکھتے ہی کوسنا شروع کیا۔۔۔ پھوپو
میری بہن ہے یہ۔۔۔مرحا نے پھوپو کو خوشی خوشی بتایا۔۔۔۔ پھوپو نے ایک نظر ڈالنا
بھی گوارہ نہ کیا۔۔ اعجاز صاحب کام سے واپس لوٹے تو اُسے دیکھ کر سیخ پا ہو
گئے۔۔۔۔ کیوں واپس آئی ہو اس بوجھ کو لادے۔۔۔نکلو گھر سے باہر۔۔۔۔شہلا کا ہاتھ
پکڑے اُنہوں نے گھر سے باہر کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔۔ مرہا اور روحا باپ کی آواز
پر خوف سے رونے لگی تھیں۔۔ اُن کی ماں ہاتھ جوڑے اپنے شوہر کے پیروں میں لپٹ گئی
تھی۔۔۔۔ کوئی دوسرا آسرا نہیں تھا اس گھر کے سوا۔۔۔ شادی کے پانچ سالوں میں پیدا
ہونے والی اس تیسری بیٹی کی وجہ سے یہ آسرا بھی ختم ہونے جا رہا تھا۔۔۔ میں کہتی
ہوں طلاق دے کر معاملہ ختم کر اس کا۔۔اعجازصاحب کی ماں کی آواز گونجی تھی۔۔ اللہ
کے لیے رحم کریں مجھ پر۔۔۔۔ بچیوں کو لیے کہاں جاوں گی میں۔۔۔ شہلا کی حالت بگڑ
رہی تھی صبح ہی تو اُس نے ننھی پری کو جنم دیا تھا ۔ پیدا کرنے سے پہلے سوچنا
چاہیے تھا نہ ۔۔۔ امّاں کو کہاں کوئی ہمدردی تھی اُس سے۔۔۔ شہلا بے ھوش ہو گئی تھی
۔۔۔ اعجاز صاحب نے گالیاں بکتے اُسے اٹھایا اور سٹور میں گھسیٹ کر چھوڑ آئے۔۔۔ اُس
کی بیہوشی نے فلوقت اُسے دربدر ہونے سے بچا لیا۔۔ کہنے کو تو مرہا اس وقت کوئی چار
سال کے قریب تھی لیکن کچھ لمحے اُس کے ذہن میں ایسے بیٹھ گئے کے وہ آج تک بھلا
نہیں سکی تھی۔۔۔ او بیبی۔۔۔اگر کہانی گھڑ لی ہو تو چلو بیان دّینے ۔۔۔پولس
کانسٹیبل کی آواز پر وہ چونکی تھی۔۔۔ دوپٹہ اِرد گِرد پھیلاتے وہ سرخ سوجی شکل لیے
دوبارہ انسپکٹریس کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔ چلو شاباش۔۔۔۔سچ بولتی جاؤ۔۔۔۔وہ گھاک
نظروں سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔۔ مرحا نے پھر وہی کہانی دہرائی تھی۔۔۔۔ تمھارے باپ نے
تو کچھ اور بیان دیا ہے معصومہ بیگم۔۔۔۔انسپکٹریس کو جلال آیا ۔۔۔ وہ پینتیس سالہ
مرد تمہارا عاشق تھا ۔۔۔تم نے اُس سے محبت کے نام پر پیسہ لیا تھا اور جب تم نے
شادی سے انکار کیا تو وہ لڑنے آیا تھا اور تم نے جان چھڑانے کے لیے اُس کا قتل کیا
ہے جان بوجھ کر۔۔۔۔انسپکٹریس نے بمب پھوڑا تھا۔۔ مرہا حق دق بیٹھی رہ گئی۔۔۔
It’s Free Download Link