Aik Aur Raaz By Faryal Khan

Novel : Aik Aur Raaz 
Writer Name : Faryal Khan

Mania team has started  a journey for all social media writers to publish their Novels and short stories. Welcome To All The Writers, Test your writing abilities.
They write romantic novels, forced marriage, hero police officer based Urdu novel, suspense novels, best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels , romantic novels in Urdu pdf , full romantic Urdu novels , Urdu , romantic stories , Urdu novel online , best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels
romantic novels in Urdu pdf, Khoon bha based , revenge based , rude hero , kidnapping based , second marriage based,
Aik Aur Raaz Novel Complete by Faryal Khan is available here to download in pdf form and online reading.
 

وہ کھڑکی سے ہٹ کر اپنی رائٹنگ ٹیبل کے پاس آیا۔دراز کھول کر
اپنی ایک کتاب نکالی۔اس میں سے ایک صفحہ پھاڑ کر الگ کیا۔کتاب کو واپس دراز میں
رکھا۔پین ہولڈر سے ایک سیاہ رنگ کا پین اٹھایا۔اور رائٹنگ ٹیبل پر جھک کر اس صفحے
پے کچھ لکھنے لگا۔
دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جسے موت کا نام سن کر ہلکی سی
بھی وحشت نہ ہوتی ہو ، پر کبھی کبھی ہم ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں ، جہاں موت کو
گلے لگانے سے زیادہ آسان کام اور کوئی نہیں لگتا ، اور کبھی کبھی ہمیں اس مقام تک
پہنچانے میں ان لوگوں نے اہم کردار ادا کیا ہوتا ہے ، جن کا مقام ہمارے دل میں بہت
بلند اور معتبر ہوتا ہے ، مجھے اس مقام پر بھی میرے والدین لے کر آئے ہیں۔”
خضر نے لکھا۔
میں ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا ، پر میرے پاس اب کوئی راستہ
بھی نہیں بچا ہے۔
” “مجھے سیدھے راستے پر چل کر میری چاہت نہیں ملی ، میں اپنا من
پسند پروفیشن نہیں اپنا سکا ، اب مجبورً مجھے یہ راستہ اختیار کرنا پڑرہا
ہے۔” اس نے مزید لکھا۔ وہ اور بھی کافی کچھ لکھتا رہا۔جسے پڑھنے کیلئے اسکی
آنکھوں کے آنسوں بھی اتنے بےچین تھے کہ بار بار صفحے پر گررہے تھے۔پر اپنے آنسوؤں
کو نظر انداز کیے وہ لکھتا رہا۔جب وہ اپنے دل کا غبار صفحے پر نکال چکا۔تو اس نے
پین واپس ہولڈر میں ڈالا۔اور وہ صفحہ ایسے ہی ٹیبل پر رکھ کر اس پیر پین ہولڈر رکھ
دیا کہ کہیں صفحہ ہوا سے اڑ کر کہیں چلا نہ جائے۔تھوڑی دیر وہ ایسے ہی کھڑا رہا۔ پھر
وہ باتھروم کی جانب بڑھا۔باتھروم میں بنے شیلف سے بلیڈ اٹھایا اور کمرے میں
آگیا۔اپنی رائٹنگ ٹیبل کے قریب رکھی کرسی کھنچ کر اس پر بیٹھ گیا۔اور بلیڈ کو گھما
گھما کر دیکھنے لگا۔اسکے ذہن میں کئی باتیں گردش کررہی تھیں۔
پتہ نہیں کیسی اولاد مل گئی ہے مجھے، کیوں تیری عقل میں میری
بات نہیں آرہی، یہ نتیجہ لائے ہو؟ تمھیں پتہ ہے ، برابر والے فیصل صاحب کے بیٹے نے
ٹاپ کیا ہے اپنے کالج میں اور ایک تم ہو، شرمندہ کرکے رکھ دیا ہے ، ناک کٹوادی ہے،
اب لوگوں کو پتہ چلے گا تو کتنی باتیں بنائیں گے۔” صداقت صاحب نے غصے سے کہا۔
یہ ساری باتیں صداقت صاحب نے خضر سے تب کہی تھیں جب اس نے انہیں اپنے رزلٹ کا
بتایا تھا۔
آپ کو اپنی ناک، اپنی انا، اپنی عزت زیادہ عزیز ہے ناں ابو ،
تو پھر ویسے نا سہی ، تو ایسے ہی سہی۔” اس نے خودکلامی کی۔ اپنا بائیاں ہاتھ
اپنے آگے کیا۔بلیڈ نس پر رکھ کر آنکھیں بند کی۔دو آنسوں اس کے گالوں پر پھسلے اور
پھر
………………!
وہ رک گیا اور اٹھ کر الماری کی جانب آیا۔اس
میں سے اپنا ہینڈی کیم نکالا۔اسے لے کر واپس کرسی پر آگیا۔ہینڈی کیم سٹارٹ کرکے
کیمرہ اپنی جانب کیا۔اور بولنا شروع کیا۔
میں نے اس ویڈیو کے ساتھ یہاں ایک نوٹ بھی رکھا ہے ، پر اس
میں شاید میں اپنے احساس ٹھیک سے بیان نہیں کرسکا ، غصے میں پتہ نہیں کیا کیا لکھ
دیا ہے میں نے ، اسی لئے یہ ویڈیو بنا رہا ہوں ، مجھے ابریش کے انکار کا اتنا دکھ
نہیں ہے ، بلکہ میں اسکا شکر گزار ہوں کہ اسکی وجہ سے مجھے مراد اور عفان جیسے
دوست ملے ، دراصل مجھے کبھی اتنی محبت اور توجہ نہیں ملی تھی ، اسی لئے ابریش میں
نے تمہاری مخلص دوستی کو پیار کا رنگ دے دیا ، مجھے لگا شاید یہی پیار ہوتا ہے ،
پر امی ابو! میں آپ دونوں سے مخاطب ہوں ، آپ دونوں چاہتے تھے ناں کہ میں بھیا کی
طرح ڈاکٹر بنوں ، پر میں نہیں بن سکتا ، کیونکہ میں نہیں چاہتا ، کچھ بچے ہوتے ہیں
جو اپنے ماں باپ کی مرضی کا پروفیشن اپنا لیتے ہیں ، کیونکہ انکا اپنا کوئی خواب
نہیں ہوتا ، پر میرا ایک خواب تھا ، کہ میں ایک پینٹر بنوں ، اور یہ کوئی اتنا بڑا
جرم تو نہیں تھا ،مانا کہ ماں باپ کبھی اولاد کا برا نہیں چاہتے ، پر کیا اولاد کو
اتنا بھی حق نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند کا پروفیشن چن سکے؟ اپنی مرضی کا شریک حیات
چن سکے ، ماں باپ اتنے سنگدل کیسے ہوسکتے ہیں ، مانا کہ بطور پینٹر میری آمدنی
بھیا جتنی نہیں ہوتی ، پر مجھے کسی کے آگے ہاتھ تو نہیں پھیلانے پڑتے ناں ! میں جو
بھی کماتا وہ میری عزت و محنت کی کمائی ہوتی ، پر آپ لوگوں نے تو کبھی مجھے اپنی
اولاد سمجھا ہی نہیں ، پریشر ککر اور ریس کا گھوڑا سمجھ لیا ، بس ککر کی طرح مجھ
پر پریشر ڈالتے رہتے کہ پڑھو پڑھو پڑھو ، اور ریس کے گھوڑے کی طرح مجھے سب سے آگے
جانے کی ریس میں لگائے رکھا ، کیا زندگی میں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ڈاکٹر
بنتے ہیں یا اسکول ، کالج اور یونیورسیٹی میں اچھے نمبر لیتے ہیں؟ کیا وہ لوگ
کامیاب نہیں ہوسکتے جو ڈاکٹر نہیں ہوتے یا انکے اچھے نمبر نہیں آتے؟ میں آپ لوگوں
کی یہ خواہش پوری نہیں کرسکا ، تھک گیا ہوں میں اب یہ جنگ لڑتے لڑتے ، اسی لئے اب
میں آرام کرنا چاہتا ہوں ، میں جارہا ہوں ، اور آخری بار میری آپ لوگوں سے ، بلکہ
تمام والدین سے گزارش ہے کہ خدارا اولاد کو اولاد سمجھیں ریس کا گھوڑا نہیں۔”
کہتے ہوئے اسکی آنکھوں سے مسلسل آنسو نکل رہے تھے۔ اس نے ویڈیو ریکارڈ کرکے ہینڈی
کیم بند کرکے اپنی رائٹنگ ٹیبل پر رکھا۔اور پھر سے بلیڈ اٹھالیا۔ اس اپنی نس پر
رکھ کر کس کے آنکھیں بند کی کلمہ پڑھا اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
!”

Click on the link given below to Free download Pdf
It’s Free Download Link
 
Media Fire Download Link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top