Writer Name : Afreen Imran
They write romantic novels, forced marriage, hero police officer based Urdu novel, suspense novels, best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels , romantic novels in Urdu pdf , full romantic Urdu novels , Urdu , romantic stories , Urdu novel online , best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels
romantic novels in Urdu pdf, Khoon bha based , revenge based , rude hero , kidnapping based , second marriage based,
Sub Mausam Pyar Ke Complete Novel Pdf Novel Complete by Afreen Imran is available here to download in pdf form and online reading.
مناہل تم گاڑی میں بیٹھو میں ان کا اسٹوپڈ سا سروے کر کے آتی
ہوں۔” مناہل نے گھبرا کہ کہنا چاہا،” مم۔۔ مگر میں!”جواب میں وہ اسے تسلی دینے
لگی،” بس فورا” آرہی ہوں، ڈونٹ وری۔” کہتے ہؤے مڑی اور ساتھ ہی نظر اس چوکیدار پہ
پڑی جو اپنی کارکردگی پہ مسکرا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو” کہا تھا نا میں نے۔” وہ
اسے گھورتی اندر بڑھ گئی، مناہل نے اپنے دل کو سمجھاتے ہؤے اپنی جھکی جھکی پلکیں
اٹھائیں اور اس کی نظریں صائم کی آنکھوں سے مل گئیں، صائم کو لگا وہ ان بادامی
آنکھوں کی گہرائی میں ڈوب جاۓ گا، وہ جیسے اپنی برسوں کی پیاس اس سمے بجھا رہا
تھا، مناہل کا دل دھڑک اٹھا اس نے گھبرا کے مڑنا چاہا مگر پیر بھاری لہنگے کے گھیر
میں الجھ گیا، وہ گرتی اس سے پہلے اس کا نرم نازک ہاتھ صائم کی مضبوط گرفت میں
آگیا۔ مناہل نے سٹپٹا کے اس کی سمت دیکھا وہ اس کی سمت ہی متوجہ تھا، اس کی روشن
آنکھوں میں عجیب سی کیفیت تھی اس نے گھبرا کے نظریں جھکا لیں جب کہ صائم اسی کے
بارے میں سوچ رہا تھا، سارے بندھن توڑنے پہ راضی تھا مناہل کا دل اتھا میں ڈوبا
اور اس پہ خوف چھا گیا، اس نے گھبرا کے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر صائم کی گرفت
مضبوط تھی۔مناہل کی خوبصورت آنکھوں میں نمی سی ٹہرگئی ؤروہ اسے لرزتی آواز میں
مخاطب کرتے ہؤے بولی،”پلیز صائم! اس کی خوفزدہ آواز اسے ایکدم حواسوں میں لے آئی
اور اس کے جوش پہ بندھ باندھ گئی، اس نے اس کے نرم ہاتھ اپنی گرفت سےآذاد کر دئیے۔
اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر ایک گہرا سانس لیا جیسے اپنی کیفیت پہ قابو پانا
چاہا، جب کہ وہ اس سے نظریں چراۓ اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں کو قابو کرنے کی ناکام سی
کو شش کر رہی تھی۔ صائم نے ایک نظر اس کے چہرے پہ ڈال کر اس کے لئے پچھلا دروازہ
کھول دیا، وہ ایکدم نڈھال سی ہوکر سیٹ پہ گر سی گئی، ذ ہن بالکل سلیٹ کی مانند تھا
جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بالکل ختم ہوگئی ہو۔ وہ اپنا بھرم قائم رکھنے کی
دعائیں مانگتی آنکھیں موند کر بیٹھ گئی، تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر علوینہ اندر
بیٹھ گئی مگر اس کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی وہ پریشان ہو گئی اور ایکدم اس کا ہاتھ جو
سرد ہورہا تھا تھامتے ہؤے بولی،”کیا ہؤا مناہل؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟”مناہل نے بمشکل
اپنی آنکھیں اور کرکے اس کی سمت دیکھا اور محض اثبات میں سرہلادیا مگر ایکدم اتنی
کمزوری محسوس ہؤئی کہ وہ دوبارہ آنکھیں موند گئی جب کہ علوینہ جو پہلے ہی گھبرائی
ہؤئی تھی ایکدم صائم کو مخاطب کرتے ہؤے بولی،”صائم!کیا ہؤا ہے مناہل کو؟” اور وہ
جو ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کہ بیٹھ رہا تھا، ٹھٹھک سا گیا، گردن موڑ کے اس
دشمن جان کی سمت دیکھا جو چند دنوں میں رگ جان سے بھی قریب محسوس ہو رہی تھی مگر
درحقیقت کئی صدیوں کی دوری پہ تھی۔وہ آنکھیں موندےبیٹھی تھی جب کہ علوینہ اس سے
تیز آواز میں مخاطب تھی،”کیا کہا ہے تم نے اس سے؟ میں جب اسے چھوڑ کے گئی تھی تو
اچھی تھی۔کیا ہوگیا اچانک؟” پریشانی اور غصے کے باعث اس کی آواز خاصی اونچی ہوگئی
تھی مگر صائم بھی اس کے انداز پہ برہم سا اونچی آواز میں اسے ٹوک گیا،”اگر بھروسا
نہیں تھا مجھ پہ تو اسے یہاں چھوڑ کر کیوں گئیں تھیں؟” وہ بھی جیسے برس پڑا،
علوینہ نے اسے دیکھ کر مناہل کے ہاتھ تھام لیئے جو ٹھنڈے برف ہو رہے تھے۔ اس کا
چہرا تھپک کر اسے پکار رہی تھی،”مناہل!مناہل!ہوش کرو۔آنکھیں کھولو!” وہ آہستہ
آہستہ اس کے ہاتھ سہلا رہی تھی، مناہل کو لگا جیسے کوئی اسے پکار رہا ہے مگر آواز
جیسے کہیں بہت دور سے آرہی تھی۔اس نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولیں، پہلی نظر علوینہ
پہ پڑی اور اس نے بمشکل مسکرا کے اسے تسلی دینی چاہی اور تبھی نظریں صائم کے
سنجیدہ مگر فکرمند چہرے پہ پڑیں اور وہ ایکدم سٹپٹا گئی،دل نئے سرے سے دھڑک اٹھا
ساتھ ہی خوف محسوس ہؤا کہ اس کا بھرم ہی نا کھل جاۓ، وہ گھبرا کے سیدھی ہو بیٹھی
اور دھیمی آواز میں علوینہ کو مخاطب کرتے ہؤے بولی،”علوینہ!مم۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔” اس
کی آواز سن کر علوینہ کے ہونٹوں سے اطمینان بھری سانس نکل گئی اور اس نے ایکدم اسے
گلے سے لگا لیا اور کہا،”ڈرا کے رکھ دیا مجھے۔پاگل! اس کو ہوش میں دیکھ کر صائم کو
بھی اطمینان ہوگیا تھا اسی لئے اس نے گاڑی اسٹارٹ کردی مگر ترشی سے کہنے سے بعض نا
آیا،”اب اگر تسلی ہوگئی ہو تو چلیں۔” جواب میں علوینہ نے تھک کے کہا،”تم تو کچھ
بولو ہی نا! یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہؤا ہے۔”صائم کو اس کا لہجہ جتاتا ہؤا لگا،
اس نے ویو مرر سے اس کو گھور کے دیکھا اور کچھ کہنا چاہا مگر پھر لب بھینچ کر
خاموش ہوگیا۔ایک نظر مرر میں ڈالی جہاں وہ خوبصورت چہرہ نظر آرہا تھا، علوینہ اسے
پانی پلا رہی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ اس کے بےحد نزدیک تھی کہ وہ اسے محسوس کر
سکتا تھا اور جو ادراک اسے اب ہؤا تھا کہ وہ اسے کتنی شدتوں سے چاہتا ہے، جس کا
احساس اسے پہلے نہیں ہؤا تھا مگر اب جب وہ اس کی دسترس سے دور جا رہی تھی اس کی بے
چینی سوا ہو گئی تھی، وہ جانے کب سے اسکی محبت میں گرفتار تھا مگر اب وہ اپنی
لاپرواہی پہ جتنا پچھتاتا وہ کم تھا۔ وہ اسی طرح اپنے خیالوں میں کھویا رہتا اگر
پیچھے کھڑی گاڑی کا ہارن اسے حواسوں میں لے آیا اور اس نے بددلی سے کار آگے بڑھا
دی۔
It’s Free Download Link