Writer Name : Rabia Khan
They write romantic novels, forced marriage, hero police officer based Urdu novel, suspense novels, best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels , romantic novels in Urdu pdf , full romantic Urdu novels , Urdu , romantic stories , Urdu novel online , best romantic novels in Urdu , romantic Urdu novels
romantic novels in Urdu pdf, Khoon bha based , revenge based , rude hero , kidnapping based , second marriage based,
Dhanak Complete Novel Pdf Novel Complete by Rabia Khan is available here to download in pdf form and online reading.
دیکھو۔۔ گرنے سے بچالیتا ہوں تمہیں۔۔ اب بھی برا ہوں کیا۔۔؟” مسکراہٹ دبا کر تپاتے ہوۓ پوچھا تو اس نے اسے اگلے لمحے خود
سے دور ہٹایا تھا۔ وہ ہنستا ہوا پیچھے ہٹا۔۔ اس نے غصے میں پہنا جھمکا بھی اتارنے
کے لیۓ ہاتھ اونچے کیۓ تو وہ جلدی سے قریب چلا آیا۔ تابعداری سے ہتھیلی اسکے سامنے
پھیلائ۔۔ اسکی کشادہ ہتھیلی پر لالہ رُخ کا جھمکا پڑا تھا۔ اس نے آہستہ سے ہاتھ
نیچے کیۓ اور پھر سنگھار آئینے میں نظر آتے اسکے عکس کو خفگی سے دیکھا۔۔ جیسے ہی
ہاتھ بڑھا کر جھمکا لینا چاہا تو وہ مٹھی بند کرگیا۔۔ “جواب دینے آیا ہوں تمہیں۔ کیا کچھ وقت مل سکتا ہے مجھے۔۔؟” اسکے کان کے قریب بہت ہلکی سی سرگوشی ابھری تھی۔ رُخ کا دل
کہیں اندر ڈوب کر ابھرا۔۔ یہ دل تو بہت پہلے سے خوفزدہ تھا۔۔ اندر جڑ پکڑتے خوف نے
جیسے ہی اسکی سیاہ آنکھوں کو چھوا تو ارسل نے شرارت کا ہر ارادہ ترک کردیا۔۔ “م۔۔ مجھے آپکا ہر جواب قبول ہوگا۔”
اس نے گردن جھکا کر خود کو کہتے سنا تھا۔ وہ
مسکرایا۔۔ پھر مٹھی میں بند جھمکا انگلیوں میں تھاما۔۔ اسکی گردن پر گھر آۓ بال
پرے ہٹاۓ۔۔ کان کی لو ہلکے سے تھامی اور جھمکا اس میں ڈال کر مسکراہٹ دباتا پیچھے
ہٹ گیا۔ لالہ رُخ سانس روکے دیکھ رہی تھی اسکے عکس کو سنگھار آئینے میں۔۔ وہ کوئ
چھوٹا بچہ تھا جسکی شریر سی خواہش پر وہ اسے کسی بڑے کی طرح خفا ہو کر دیکھ رہی
تھی۔۔ “یہ کیا طریقہ ہے! کیوں تنگ کررہے ہیں آپ مجھے؟ آزاد تو کردیا
ہے میں نے آپکو، آپکے ہر فیصلے میں ! پھر اب کیا مصیبت آگئ ہے کہ آپ میرا پیچھا
نہیں چھوڑ رہے! دیکھیں مسٹر ارسل افگن۔۔ میں آمنہ نہیں ہوں جو چپ چاپ آپکو کسی کا
بھی ہوتا ہوا دیکھ لونگی۔ میں نے جو فیصلہ کیا ہے خود پر بہت ضبط کر کے کیا ہے
لیکن آپکا یہ بچکانہ رویہ میری سمجھ سے اب باہر ہوتا جارہا ہے۔۔ ابھی کہ ابھی میرے
سامنے سے چلے جائیں نہیں تو میں اپنا ارادہ بدل لونگی اور چھین لونگی آپکو ہر انسان
سے۔۔ جائیں ابھی کہ ابھی آپ اور ایک بات اور، مجھے انڈر ایسٹیمیٹ مت کیجیۓ گا
کیونکہ آپ ابھی مجھے جانتے نہیں ہیں میں س__”
“میں آپکے ساتھ رہنا چاہتا ہوں رُخ۔۔” اور وہ جو طیش میں ابلتی تیزی سے بولتی جارہی تھی یکدم ساکت
ہوئ۔ آنکھیں پوری کھول کر ارسل کو دیکھا۔۔ مسکارے سے سجی آنکھیں اگلے ہی پل بھیگنے
لگی تھیں۔۔ “کیا کہا آپ نے؟” اس نے بے یقینی سے بس یہی پوچھا تھا۔ وہ تھک کر مسکراتا ہوا
اسکی جانب بڑھ آیا۔۔ اور اس دفعہ وہ پیچھے نہیں ہٹی تھی۔۔ وہ اس لمحے کو کسی سحر
کی مانند اگلے ہی پل بکھر کر غائب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔۔ “میں چاہتا ہوں آپ مجھ پر قابض رہیں۔ میں چاہتا ہوں جھانسی کی
رانی اپنے میمنے کو کسی بھی دوسرے کے حوالے نہ کرے۔ کیونکہ دوسرے اسے ویسا نہیں
سمجھتے جیسا یہ لڑکی سمجھتی ہے۔۔” وہ چند پل بنا پلکیں جھپکاۓ اسے دیکھتی رہی تھی اور جیسے ہی
اسکی سیاہ آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی تیرنے لگی تو ارسل گھبرا گیا۔۔ جلدی سے ہاتھ
اٹھا کر اسے رونے سے روکا۔۔ “کیوں اتنی اچھی تیاری کا بیڑہ غرق کرنے پر تلی ہوئ ہو۔۔؟ پہلے
ہی مجھے سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے ہیں کہ اس ڈھائ کلو کے میک اپ کو لگانے میں تمہیں
کتنا عرصہ لگا ہوگا۔۔ اب اسے بھی خراب کرکے بھوت بن کر شادی میں جانے کا ارادہ ہے
تمہارا؟ دیکھو مجھے تو کوئ مسئلہ نہیں تمہارے پھیلے ہوۓ مضحکہ خیز مسکارے سے لیکن
لوگ کیا کہیں گے؟ میں تو تمہارے اجڑے، گھونسلے جیسے بالوں اور حلقوں میں ملفوف
آنکھوں کے ساتھ بھی جاسکتا ہوں۔” وہ جو رونے کی بھرپور تیاری کررہی تھی یکدم ہی ہنس دی۔ پھر
چہرہ اٹھا کر بمشکل آنسو گرنے سے روکے۔ گہرے گہرے سانس لے کر اندر اٹھتے بونچھال
کو قابو کرنا چاہا لیکن اسے رونا آۓ جارہا تھا۔ “زہر لگتے ہیں آپ مجھے ارسل۔۔ زہر۔۔!”
“بالکل۔۔ اسی زہر کے لیۓ کیسے کیسے معرکے سر کیۓ
ہیں تم نے۔۔ نہیں؟” اسکی اس چوٹ پر لالہ رُخ نے اسکے کندھے پر بھرپور دھپ رسید کی
تھی۔ نازک میمنہ بلبلایا تھا۔ “آپ اپنی ان دہشت گردیوں سے باز آجائیں۔۔ شوہر کا درجہ دیں
مجھے۔۔” وہ اب ہنستی جارہی تھی۔۔ گردن پیچھے پھینک کر۔ پھر انگلی کے
پوروں سے پلکوں پر ٹھہرے آنسوؤں کو بمشکل صاف کرتی ارسل کی جانب دیکھنے لگی۔ وہ
بھی آسودگی سے مسکراتا ہوا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ “میں ڈر گئ تھی۔۔” “جانتا ہوں۔۔” اس نے اسکے چہرے پر گھر آئ لٹ کر کان کے پیچھے اڑسی تو وہ نم
آنکھوں سے مسکرادی۔ “مجھے لگا میں کھودونگی آپکو۔۔”
“مجھے بھی یہی لگا تھا۔۔”
وہ دونوں اب دھیمی سی سرگوشی میں اعتراف کرتے
جارہے تھے۔ انا کی ساری دیواریں پگھل کر درمیان سے گرتی جارہی تھیں۔ گھٹن کم ہونے
لگی تھی۔۔ سانس کھل کر آرہا تھا۔۔ “میں آپکو کھونا نہیں چاہتی تھی۔۔”
اور بہت ضبط کے باوجود بھی ایک آنسو ٹوٹ ہی گیا
تھا اسکی آنکھ سے۔ آواز بھرّاگئ تھی۔۔ ارسل نے انگوٹھے سے اسکا آنسو صاف کیا۔ پھر
دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھاما۔۔ اپنا ماتھا اسکے ماتھے کے ساتھ ٹکادیا۔۔ دونوں
آنکھیں موندے بالکل چپ ہوۓ کھڑے تھے اب کہ۔۔ انکی خاموشی ہر لفظ پر بھاری ہونے لگی
تھی۔۔ “مجھے لگا تھا آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔۔“
It’s Free Download Link
ONLINE READING