Category : Romantic Based Novel
Writer Name : Saba Mughal
سلوی جی میں آج پھر سونو کا ہاتھ آپکے ہاتھ میں
دیتا ہوں ۔ اب مت چھوڑیے گا ” عالیان نے بہرام کا ہاتھ سلوی کے ہاتھ پر رکھا
اور دونوں کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ دبا کر تاکید کی ۔ ” جیسا آپ چاہیں ۔۔ مسٹر عالیان بہرام تابش”
سلوی نے سر کو اثبات میں ہلاتے حامی بھرتے کہا ” اور آپ ؟ ” عالیان نے سوالیہ نگاہ بہرام
کی طرف کیں ۔ ”
ممم ۔۔ مجھے تو قید میں ڈالا گیا ہے ۔ مجھے
بھلا آزادی لینے کا کہاں حق ہے ” وہ کاندھے اچکا کر لہجے میں شرافت لاتے ہوئے
بولا تو عالیان اور سلوی دونوں بے اختیار ہنس پڑے ” یہ حق کبھی دیا بھی نہیں جائے گا ۔ ”
عالیان لہجے پر زور دیتے ہوئے بولا پھر اپنے ہاتھ ہٹا لیے ۔ ” مس سلوی آپ اپنے قیدی کو سنبھالیں ۔ ” وہ
سلوی سے آنکھ دبا کر کہتا ان دونوں کو وہیں چھوڑ کر خود اندر چلا گیا ۔ اسکے جاتے
ہی سلوی نے بہرام کو دیکھا ۔ اسکے چہرے کے تاثرات زرا بدلے تھے ۔ ” کیا تم نے الفت کو مار دیا ۔ ” سلوی کا
سوال غیر متوقع تھا جس پر بہرام نے برا سا منہ بنایا ۔ ” کیا ہم آج صرف اپنی بات کریں ۔ الفت نے جو کیا
اسکی سزا اسکو مل گئی ۔ تم اب کبھی اسکا زکر میرے سامنے نہیں کرو گی ” بہرام
نے مخصوص انداز میں تنبیہ کی تو سلوی نے سر میکانکی انداز میں اثبات میں ہلا دیا ۔
”
سونو ہوتا تو کیا کرتا ؟ ” سلوی نے اسکا
چہرا دیکھتے ہوئے اگلا سوال کیا ”
پتا نہیں ۔ ” بہرام نے ہلکے سے کاندھے
اچکائے ”
شاید بہت زیادہ روتا ۔۔ ” پھر اندازہ
لگاتے ہوئے بولا ”
سونو کو اسکی سلوی جی ملتی تو کیا کرتا ۔ اسے
سب حقیقت پتا چل جاتی تو کیا کرتا ؟ سلوی نے اگلا سوال کیا ” تو بھی خوشی سے رو پڑتا ۔ اپنا چہرا سرخ کر
لیتا اور زرا جھجکتے ہوئے سلوی جی کو گلے لگا لیتا ۔ ” بہرام نے ٹھہرے ہوئے
لہجے میں بیان کرتے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا کیا سلوی کا دل بے اختیار
ڈھرکا تھا ”
میرے خیال سے وہ معصوم سی صورت بنا کر شکایت
کرتا کہ سلوی جی آپ کہاں چلی گئیں تھیں ۔ کیا میرا خیال نہیں آیا آپ کو ۔ میں نے
تو ہمیشہ اپنے گمانوں میں اسے ایسے ہی دیکھا ہے ” دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے
اور سلوی بہت پیار سے بولی تھی ۔ بہرام نے ایک لحظے کو اسکی صورت دیکھی ۔ سلوی کی
آنکھوں میں چمک تھی جو اسے بہت عرصے بعد نظر آئی تھی پھر اسنے اگلے ہی لمحے سلوی
کو اپنی طرف کرتے اسے گلے لگا لیا تھا ۔ سلوی اسکے وجود سے لگی کچھ دیر تک ساکت
رہی ۔ اسے اپنی ڈھرکن بھی سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ وقت بھی لگتا تھا رک سا گیا ہے چند
سعاتیں گزری جب بہرام نے اسے خود سے الگ کیا تھا شام تقریبا ڈھلنے کے مقام پر تھی
۔ ہلکی ہوا بھی چل رہی تھی جو سلوی کے بال پھڑپھڑا رہی تھی ۔ بہرام نے اسکے چہرے
سے ایک لٹ کان کے پیچھے اڑس دی ۔ ”
آئی لو یو ۔ ” سلوی یک دم جزبات کی شدت سے
بولی تو بہرام جوابا سر کو نیچے جھکاتے کان کی لو مسلنے لگا ۔
- Download in pdf form and online reading.
- Click on the link given below to Free download 718 Pages Pdf
- It’s Free Download Link